نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

شمع

بزمِ جہاں میں مَیں بھی ہُوں اے شمع! دردمند

فریاد در گرہ صفَتِ دانۂ سپند

دی عشق نے حرارتِ سوزِ درُوں تجھے

اور گُل فروشِ اشکِ شفَق گوں کِیا مجھے

ہو شمعِ بزمِ عیش کہ شمع مزار تُو

ہر حال اشکِ غم سے رہی ہمکنار تُو


یک بِیں تری نظر صفتِ عاشقانِ راز

میری نگاہ مایۂ آشوبِ امتیاز

کعبے میں، بُت کدے میں ہے یکساں تری ضیا

مَیں امتیازِ دیر و حرم میں پھنسا ہُوا

ہے شان آہ کی ترے دُودِ سیاہ میں

پوشیدہ کوئی دل ہے تری جلوہ گاہ میں؟


جلتی ہے تُو کہ برقِ تجلّی سے دُور ہے

بے درد تیرے سوز کو سمجھے کہ نُور ہے

تُو جل رہی ہے اور تجھے کچھ خبر نہیں

بِینا ہے اور سوز درُوں پر نظر نہیں

مَیں جوشِ اضطراب سے سیماب وار بھی

آگاہِ اضطرابِ دلِ بے قرار بھی

تھا یہ بھی کوئی ناز کسی بے نیاز کا

احساس دے دیا مجھے اپنے گداز کا


یہ آگہی مری مجھے رکھتی ہے بے قرار

خوابیدہ اس شرر میں ہیں آتش کدے ہزار

یہ امتیازِ رفعت و پستی اسی سے ہے

گُل میں مہک، شراب میں مستی اسی سے ہے

بُستان و بُلبل و گُل و بُو ہے یہ آگہی

اصلِ کشاکشِ من و تُو ہے یہ آگہی


صبحِ ازل جو حُسن ہُوا دِلستانِ عشق

آوازِ ’کُن‘ ہوئی تپش آموزِ جانِ عشق

یہ حکم تھا کہ گُلشنِ ’کُن‘ کی بہار دیکھ

ایک آنکھ لے کے خوابِ پریشاں ہزار دیکھ

مجھ سے خبر نہ پوچھ حجابِ وجود کی

شامِ فراق صبح تھی میری نمود کی

وہ دن گئے کہ قید سے مَیں آشنا نہ تھا

زیبِ درختِ طُور مرا آشیانہ تھا

قیدی ہوں اور قفَس کو چمن جانتا ہوں میں

غربت کے غم کدے کو وطن جانتا ہوں میں

یادِ وطن فسُردگیِ بے سبب بنی

شوقِ نظر کبھی، کبھی ذوقِ طلب بنی


اے شمع! انتہائے فریبِ خیال دیکھ

مسجودِ ساکنانِ فلک کا مآل دیکھ

مضموں فراق کا ہوں، ثریّا نشاں ہوں میں

آہنگِ طبعِ ناظمِ کون و مکاں ہوں میں

باندھا مجھے جو اُس نے تو چاہی مری نمود

تحریر کر دیا سرِ دیوانِ ہست و بود

گوہر کو مشتِ خاک میں رہنا پسند ہے

بندش اگرچہ سُست ہے، مضموں بلند ہے

چشمِ غلَط نِگر کا یہ سارا قصور ہے

عالم ظہورِ جلوۂ ذوقِ شعور ہے

یہ سلسلہ زمان و مکاں کا، کمند ہے

طوقِ گلُوئے حُسنِ تماشا پسند ہے

منزل کا اشتیاق ہے، گم کردہ راہ ہوں

اے شمع! مَیں اسیرِ فریبِ نگاہ ہوں

صیّاد آپ، حلقۂ دامِ ستم بھی آپ

بامِ حرم بھی، طائرِ بامِ حرم بھی آپ!

مَیں حُسن ہوں کہ عشقِ سراپا گداز ہوں

کھُلتا نہیں کہ ناز ہوں میں یا نیاز ہوں

ہاں، آشنائے لب ہو نہ رازِ کُہن کہیں

پھر چھِڑ نہ جائے قصّۂ دار و رَسن کہیں


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے