نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

توحید، رسالت اور اقبال


 عقیدہ توحید و رسالت کی اہمیت اور باہمی تعلق کے متعلق حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے منتخب اشعار

1۔ درجہانِ کیف و کم گردید عقل

پے بہ منزل برد از توحید عقل

جذبات و پیمائش کی اس دنیا میں عقل آوارہ پھر رہی تھی، توحید سے اسے منزل کی طرف رہنمائی حاصل ہوئی۔

2۔ ورنہ ایں بیچارہ را منزل کجاست

کشتیٔ ادراک را ساحل کجاست

ورنہ عقل کو منزل کہاں نصیب تھی، فہم کی کشتی کے لئے کوئی ساحل نہیں تھا۔

3۔ اہلِ حق را رمز توحید ازبر است

در ’’اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا‘‘ مضمراست

اہل حق توحید کی رمز کو خوب جانتے ہیں یہی راز‘( آیت) ’’اٰتِی الرَّحْمٰنِ عَبْدًا‘‘ (مریم، 19: 93) میں مضمر ہے۔

4۔ دیں ازو ‘حکمت ازو ‘آئیں ازو

زور ازو ‘قوت ازو ‘تمکیں ازو

دین، حکمت، شریعت سب توحید ہی سے ہیں، اسی سے (افراد و قوم) میں زور، قوت اور ثبات و استحکام پیدا ہوتا ہے۔

5۔ قدرتِ او برگزیند بندہ را

نوع دیگر آفریند بندہ را

توحید کی قدرت بندے کو برگزیدہ بنا دیتی ہے اور اسے نئی نوع میں تبدیل کر دیتی ہے۔

6۔ در رہِ حق تیزتر گردد تگش

گرم تراز برق خوں اندر رگش

عقیدۂ توحید سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں بندے کی تگ و دو تیز ہو جاتی ہے اور اس کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون برق سے بھی زیادہ گرم ہو جاتا ہے۔

7۔ ملتِ بیضا تن و جاں لَا اِلٰہ

سازِ ما را پردہ گرداں لَا اِلٰہ

ملت مسلمہ بدن ہے اور توحید اس کی جان ہے لا إلہ ہمارے ساز کے سارے نغموں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔

8۔ لَا اِلٰہ سرمایۂ اسرارِ ما

رشتہ اش شیرازۂ افکارِ ما

لَا إلہ ہمارے (روحانی) اسرار کا سرمایہ ہے اسی سے ہمارے افکار کی شیرازہ بندی ہے۔

9۔ اسود از توحید احمر می شود

خویش فاروقؓ و ابوذرؓ می شود

توحید کی برکت سے بلالِ حبشی ؓسرخ رنگ والوں کے برابر ہو جاتا ہے اور فاروقؓ و ابوذرؓ کا رشتہ دار شمار ہونے لگتا ہے۔

10۔ رشتۂ ایں قوم مثلِ انجم است

چوں نگہ ہم از نگاہِ ما گم است

ملت اسلامیہ کا باہمی تعلق ستاروں کے باہمی تعلق کی مانند ہے اور یہ تعلق نگاہ کی طرح ہماری نگاہ سے گم ہے۔

11۔ مدعا ئے ‘ما مآلِ ما یکے ست

طرزو اندازِ خیالِ ما یکے ست

ہمارا مدعا بھی ایک ہے اور ہمارا مقصد بھی ایک ہے ہماری سوچ بھی ایک ہے اور اس کے اظہار کا طریقہ بھی ایک جیسا ہے۔

12۔ گر خدا داری زغم آزاد شو

از خیالِ بیش و کم آزاد شو

اگر تمہارا اللہ پر ایمان ہے تو ہر طرح کے غم اور نفع و نقصان کے خیال سے آزاد ہو جا۔

13۔ بیم غیر اللہ عمل را دشمن است

کاروانِ زندگی را رہزن است

( یاد رکھ )غیر اللہ کا خوف عمل کا دشمن اور قافلہ حیات کا رہزن ہے۔

14۔ ہرکہ رمزِ مصطفی فہمیدہ است

شرک را در خوف مضمر دیدہ است

جس کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راز کو سمجھ لیا وہ او حقیقت کو پا گیا کہ (غیر اللہ کے) خوف میں شرک چھپا ہوا ہے۔

15۔ گربہ اللہ الصمد دل بستہٖ

از حدِ اسباب بیروں جستہٖ

اگر تونے اللہ تعالیٰ کی شانِ استغناء دل سے تسلیم کر لیا ہے توگویا تو اسباب کی حدود کو پھلانگ گیا۔

16۔ بندۂ حق بندۂ اسباب نیست

زندگانی گردشِ دولاب نیست

اللہ تعالیٰ کا بندہ بندئہ اسباب نہیں، اس کے لئے زندگی رہٹ کی گردش نہیں۔

17۔ مسلم استی بے نیاز از غیر شو

اہلِ عالم را سراپا خیر شو

اگر تو سچا مسلمان ہے تو غیر اللہ سے بے نیاز ہو جا اور دنیا والوں کے لئے سراپا خیر بن جا۔

18۔ نقطۂ ادوارِ عالم لا الہ

انتہائے کارِ عالم لا الہ

جہانوں کی گردش کا مرکز لا الہ ہے اور اس جہان کے کام کی انتہا بھی لا الہ ہے۔

19۔ زانکہ در تکبیر رازِ بودِ تست

حفظ و نشرِ لا الہ مقصودِ تست

چونکہ تیرے وجود کا راز نعرئہ تکبیر میں پنہاں ہے اس لئے توحید کی حفاظت و اشاعت تیرا مقصود ہے۔

20۔ ما کہ توحید خدارا حجتیم

حافظ رمز کتاب و حکمتیم

ہم چونکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کی حجت ہیں اس لئے کتاب و حکمت کے راز کے نگہبان بھی ہیں۔

21۔ حق تعالیٰ پیکرِ ما آفرید

وز رسالت در تنِ ما جان دمید

اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کا پیکر تخلیق فرمایا اور رسالت سے اس پیکر میں جان پھونکی۔

22۔ از رسالت درجہاں تکوینِ ما

از رسالت دینِ ما آئینِ ما

رسالت ہی سے اس دنیا میں ہمارا وجود قائم ہے رسالت سے ہی ہمارا دین اور ہمارا آئین (شریعت) ہے۔

23۔ از رسالت صد ہزار ما یک است

جزو ما از جزو ما لا ینفک است

رسالت ہی سے ہم ہزارہا ہونے کے باوجود ایک ہیں اسی کی بدولت ہمارا ایک جزو دوسرے کا جزو لاینفک (جدا نہ ہونے والا) ہے۔

24۔ ما ز حکمِ نسبتِ او ملّتیم

اہلِ عالم را پیامِ رحمتیم

ہم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت سے ایک ملت ہیں اور دنیا والوں کے لئے رحمت کا پیغام ہیں۔

25۔ از میان بحر او خیزیم ما

مثلِ موج ازہم نمیریزیم ما

ہم رسالت کے سمندر سے اٹھے ہیں اور موج کی مانند ہم ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے۔

26۔ دامنش از دست دادن ُمردن است

چوں گل از بادِ خزاں افسردن است

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دینا موت ہے یہ ایسے ہے جیسے پھول باد خزاں سے مرجھا جائے۔

27۔ زندگی قوم ازدمِ او یافت است

ایں سحر از آفتابش تافت است

ملت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دم سے زندگی پائی ہے ملت کی صبح آپ کے آفتاب سے روشن ہے۔

28۔ فرد از حق‘ ملت از وے زندہ است

از شعاعِ مہرِ او تابندہ است

فرد اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق سے قائم ہے اور ملت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلق سے زندہ ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آفتاب کی شعاع سے چمک رہی ہے۔

29۔ دینِ فطرت از نبی آموختیم

در رہِ حق مشعلے افروختیم

یہ دین فطرت ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا ہے اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مشعلِ ہدایت روشن کی ہے۔

30۔ ایں گہر از بحر بے پایانِ اوست

ما کہ یکجا نیم از احسانِ اوست

دین فطرت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحر بے پایان کا موتی ہے ہم جو یک جان ہیں تو یہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہی احسان ہے۔

31۔ پس خدا برما شریعت ختم کرد

بر رسولِ ما رسالت ختم کرد

اللہ تعالیٰ نے شریعت ہم پر ختم کر دی ہے جیسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رسالت ختم کر دی ہے۔

32۔ قوم را سرمایۂ قوت ازو

تا ابد اسلام را شیرازہ بست

یہی چیز ملت کے لئے سرمایہ قوت اور وحدت ملت کے بھید کی حفاظت کرنے والی ہے۔

33۔ بایکی ساز ‘ از دوئی بردار رخت

وحدتِ خود را مگرداں لخت لخت

توحید کی حقیقت کو اپنالے اور کثرت کو خیرباد کہہ اپنی وحدت کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کر۔

34۔ صدملل از ملّتے انگیختی

برحصارِ خود شبیخوں ریختی

تو نے (افتراق کے باعث) ایک ملت سے سینکڑوں ملتیں بنا لی ہیں تو نے اپنے قلعہ پر خود شبخوں مارا ہے اور اسے تباہ و برباد کر دیا ہے۔

35۔ یک شوو توحید را مشہود کن

غائبش را از عمل موجود کن

(اپنی اور ملت کی بقاء کے لئے) ایک ہو جا اور توحید کا عملی نمونہ پیش کر، نظریہ توحید کو عمل سے وجود میں لا۔

ماخوذ از رموزِ بےخودی

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اِلتجائے مُسافر

(بہ درگاہِ حضرت محبوبِ الٰہیؒ دہلی) فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اُونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبّت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ تو ام وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تو ام چمن کو چھوڑ کے نِکلا ہوں مثلِ نگہتِ گُل ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہُوں کِیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو فلک نشیں صفَتِ مہر ہُوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی مِلے فغاں مجھ کو بنایا تھا جسے چُن چُن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پہ جبیں کِیا جنھوں نے محبّ...

ایک پرندہ اور جگنو

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز! نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گُلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا