نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جُگنو

جُگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں

یا شمع جل رہی ہے پھُولوں کی انجمن میں


آیا ہے آسماں سے اُڑ کر کوئی ستارہ

یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں


یا شب کی سلطنت میں دن کا سفیر آیا

غربت میں آ کے چمکا، گمنام تھا وطن میں


تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا

ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیرہن میں


حُسنِ قدیم کی یہ پوشیدہ اک جھلک تھی

لے آئی جس کو قُدرت خَلوت سے انجمن میں


چھوٹے سے چاند میں ہے ظلمت بھی روشنی بھی

نکلا کبھی گہن سے، آیا کبھی گہن میں


پروانہ اک پتنگا، جُگنو بھی اک پتنگا

وہ روشنی کا طالب، یہ روشنی سراپا


ہر چیز کو جہاں میں قدرت نے دلبری دی

پروانے کو تپش دی، جُگنو کو روشنی دی


رنگیں نوا بنایا مُرغانِ بے زباں کو

گُل کو زبان دے کر تعلیمِ خامشی دی


نظّارۂ شفَق کی خوبی زوال میں تھی

چمکا کے اس پری کو تھوڑی سی زندگی دی


رنگیں کِیا سحَر کو، بانکی دُلھن کی صورت

پہنا کے لال جوڑا شبنم کی آرسی دی


سایہ دیا شجَر کو، پرواز دی ہوا کو

پانی کو دی روانی، موجوں کو بے کلی دی


یہ امتیاز لیکن اک بات ہے ہماری

جُگنو کا دن وہی ہے جو رات ہے ہماری


حُسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے

انساں میں وہ سخن ہے، غنچے میں وہ چٹک ہے


یہ چاند آسماں کا شاعر کا دل ہے گویا

واں چاندنی ہے جو کچھ، یاں درد کی کسک ہے


اندازِ گفتگو نے دھوکے دیے ہیں ورنہ

نغمہ ہے بُوئے بُلبل، بُو پھول کی چہک ہے


کثرت میں ہو گیا ہے وحدت کا راز مخفی

جُگنو میں جو چمک ہے، وہ پھول میں مہک ہے


یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو

ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشیِ ازل ہو

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے