نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تصویرِ درد

نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے

چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری

اُڑالی قُمریوں نے، طُوطیوں نے، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مِل کر لُوٹ لی طرزِ فغاں میری

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری

الٰہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا

حیاتِ جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری!

مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گُلستاں کا

وہ گُل ہوں مَیں، خزاں ہر گُل کی ہے گویا خزاں میری

’’دریں حسرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم

ز فیضِ دل تپیدنہا خروشِ بے نفَس دارم‘‘


ریاضِ دہر میں ناآشنائے بزمِ عشرت ہوں

خوشی روتی ہے جس کو، مَیں وہ محرومِ مسرّت ہوں

مری بگڑی ہوئی تقدیر کو روتی ہے گویائی

مَیں حرفِ زیرِ لب، شرمندۂ گوشِ سماعت ہوں

پریشاں ہوں میں مُشتِ خاک، لیکن کچھ نہیں کھُلتا

سکندر ہوں کہ آئینہ ہوں یا گردِ کدُورت ہوں

یہ سب کچھ ہے مگر ہستی مری مقصد ہے قُدرت کا

سراپا نور ہو جس کی حقیقت، مَیں وہ ظلمت ہوں

خزینہ ہُوں، چھُپایا مجھ کو مُشتِ خاکِ صحرا نے

کسی کو کیا خبر ہے مَیں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں!

نظر میری نہیں ممنونِ سیرِ عرصۂ ہستی

مَیں وہ چھوٹی سی دنیا ہوں کہ آپ اپنی ولایت ہوں

نہ صہباہوں نہ ساقی ہوں، نہ مستی ہوں نہ پیمانہ

مَیں اس میخانۂ ہستی میں ہر شے کی حقیقت ہوں

مجھے رازِ دو عالم دل کا آئینہ دِکھاتا ہے

وہی کہتا ہوں جو کچھ سامنے آنکھوں کے آتا ہے


عطا ایسا بیاں مجھ کو ہُوا رنگیں بیانوں میں

کہ بامِ عرش کے طائر ہیں میرے ہم زبانوں میں

اثر یہ بھی ہے اک میرے جُنونِ فتنہ ساماں کا

مرا آئینۂ دل ہے قضا کے رازدانوں میں

رُلاتا ہے ترا نظّارہ اے ہندوستاں! مجھ کو

کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں

دیا رونا مجھے ایسا کہ سب کچھ دے دیا گویا

لِکھا کلکِ ازل نے مجھ کو تیرے نوحہ خوانوں میں

نشانِ برگِ گُل تک بھی نہ چھوڑ اس باغ میں گُلچیں!

تری قسمت سے رزم آرائیاں ہیں باغبانوں میں

چھُپا کر آستیں میں بجلیاں رکھی ہیں گردُوں نے

عنادِل باغ کے غافل نہ بیٹھیں آشیانوں میں

سُن اے غافل صدا میری، یہ ایسی چیز ہے جس کو

وظیفہ جان کر پڑھتے ہیں طائر بوستانوں میں

وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے

تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں

ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہو رہا ہے، ہونے والا ہے

دھَرا کیا ہے بھلا عہدِ کُہن کی داستانوں میں

یہ خاموشی کہاں تک؟ لذّتِ فریاد پیدا کر

زمیں پر تُو ہو اور تیری صدا ہو آسمانوں میں

نہ سمجھو گے تو مِٹ جاؤ گے اے ہندوستاں والو!

تمھاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں

یہی آئینِ قدرت ہے، یہی اسلوبِ فطرت ہے

جو ہے راہِ عمل میں گام زن، محبوبِ فطرت ہے


ہوَیدا آج اپنے زخمِ پنہاں کر کے چھوڑوں گا

لہُو رو رو کے محفل کو گُلستاں کر کے چھوڑوں گا

جلانا ہے مجھے ہر شمعِ دل کو سوزِ پنہاں سے

تری تاریک راتوں میں چراغاں کر کے چھوڑوں گا

مگر غنچوں کی صورت ہوں دلِ درد آشنا پیدا

چمن میں مُشتِ خاک اپنی پریشاں کر کے چھوڑوں گا

پرونا ایک ہی تسبیح میں ان بکھرے دانوں کو

جو مشکل ہے، تو اس مشکل کو آساں کر کے چھوڑوں گا

مجھے اے ہم نشیں رہنے دے شغلِ سینہ کاوی میں

کہ مَیں داغِ محبّت کو نمایاں کر کے چھوڑوں گا

دِکھا دوں گا جہاں کو جو مری آنکھوں نے دیکھا ہے

تجھے بھی صورتِ آئینہ حیراں کر کے چھوڑوں گا

جو ہے پردوں میں پنہاں، چشمِ بینا دیکھ لیتی ہے

زمانے کی طبیعت کا تقاضا دیکھ لیتی ہے


کِیا رفعت کی لذّت سے نہ دل کو آشنا تو نے

گزاری عمر پستی میں مثالِ نقشِ پا تو نے

رہا دل بستۂ محفل، مگر اپنی نگاہوں کو

کِیا بیرونِ محفل سے نہ حیرت آشنا تو نے

فدا کرتا رہا دل کو حَسینوں کی اداؤں پر

مگر دیکھی نہ اس آئینے میں اپنی ادا تو نے

تعصّب چھوڑ ناداں! دہر کے آئینہ خانے میں

یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے بُرا تو نے

سراپا نالۂ بیدادِ سوزِ زندگی ہو جا

سپند آسا گرہ میں باندھ رکھّی ہے صدا تو نے

صفائے دل کو کیا آرائشِ رنگِ تعلّق سے

کفِ آئینہ پر باندھی ہے او ناداں حنا تو نے

زمیں کیا، آسماں بھی تیری کج بینی پہ روتا ہے

غضب ہے سطرِ قرآں کو چلیپا کر دیا تو نے!

زباں سے گر کِیا توحید کا دعویٰ تو کیا حاصل!

بنایا ہے بُتِ پندار کو اپنا خدا تو نے

کُنویں میں تُو نے یوسف کو جو دیکھا بھی تو کیا دیکھا

ارے غافل! جو مطلق تھا مقیّد کر دیا تو نے

ہوس بالائے منبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی

نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی


دِکھا وہ حسنِ عالم سوز اپنی چشمِ پُرنم کو

جو تڑپاتا ہے پروانے کو، رُلواتا ہے شبنم کو

نِرا نظّارہ ہی اے بوالہوس مقصد نہیں اس کا

بنایا ہے کسی نے کچھ سمجھ کر چشمِ آدم کو

اگر دیکھا بھی اُس نے سارے عالم کو تو کیا دیکھا

نظر آئی نہ کچھ اپنی حقیقت جام سے جم کو

شجر ہے فرقہ آرائی، تعصّب ہے ثمر اس کا

یہ وہ پھل ہے کہ جنّت سے نِکلواتا ہے آدم کو

نہ اُٹھّا جذبۂ خورشید سے اک برگِ گُل تک بھی

یہ رفعت کی تمنّا ہے کہ لے اُڑتی ہے شبنم کو

پھرا کرتے نہیں مجروحِ اُلفت فکرِ درماں میں

یہ زخمی آپ کر لیتے ہیں پیدا اپنے مرہم کو

محبّت کے شرر سے دل سراپا نور ہوتا ہے

ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طُور ہوتا ہے


دوا ہر دُکھ کی ہے مجروحِ تیغِ آرزو رہنا

علاجِ زخم ہے آزادِ احسانِ رفو رہنا

شرابِ بے خودی سے تا فلک پرواز ہے میری

شکستِ رنگ سے سیکھا ہے مَیں نے بن کے بُو رہنا

تھمے کیا دیدۂ گریاں وطن کی نوحہ خوانی میں

عبادت چشمِ شاعر کی ہے ہر دم باوضو رہنا

بنائیں کیا سمجھ کر شاخِ گُل پر آشیاں اپنا

چمن میں آہ! کیا رہنا جو ہو بے آبرو رہنا

جو تُو سمجھے تو آزادی ہے پوشیدہ محبّت میں

غلامی ہے اسیرِ امتیازِ ماوتو رہنا

یہ استغنا ہے، پانی میں نگوں رکھتا ہے ساغر کو

تجھے بھی چاہیے مثلِ حبابِ آبجو رہنا

نہ رہ اپنوں سے بے پروا، اسی میں خیر ہے تیری

اگر منظور ہے دنیا میں او بیگانہ خو! رہنا

شرابِ رُوح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی

سِکھایا اس نے مجھ کو مست بے جام و سبو رہنا

محبّت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے

کِیا ہے اپنے بختِ خُفتہ کو بیدار قوموں نے


بیابانِ محبّت دشتِ غربت بھی، وطن بھی ہے

یہ ویرانہ قفس بھی، آشیانہ بھی، چمن بھی ہے

محبّت ہی وہ منزل ہے کہ منزل بھی ہے، صحرا بھی

جرَس بھی، کارواں بھی، راہبر بھی، راہزن بھی ہے

مرَض کہتے ہیں سب اس کو، یہ ہے لیکن مرَض ایسا

چھُپا جس میں علاجِ گردشِ چرخِ کُہن بھی ہے

جَلانا دل کا ہے گویا سراپا نُور ہو جانا

یہ پروانہ جو سوزاں ہو تو شمعِ انجمن بھی ہے

وہی اک حُسن ہے، لیکن نظر آتا ہے ہر شے میں

یہ شیریں بھی ہے گویا، بیستوُں بھی، کوہکن بھی ہے

اُجاڑا ہے تمیزِ ملّت و آئِیں نے قوموں کو

مرے اہلِ وطن کے دل میں کچھ فکرِ وطن بھی ہے؟

سکُوت آموز طولِ داستانِ درد ہے ورنہ

زباں بھی ہے ہمارے مُنہ میں اور تابِ سخن بھی ہے

“نمیگردید کوتہ رشتۂ معنی رہا کردم

حکایت بود بے پایاں، بخاموشی ادا کردم”

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اِلتجائے مُسافر

(بہ درگاہِ حضرت محبوبِ الٰہیؒ دہلی) فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اُونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبّت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ تو ام وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تو ام چمن کو چھوڑ کے نِکلا ہوں مثلِ نگہتِ گُل ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہُوں کِیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو فلک نشیں صفَتِ مہر ہُوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی مِلے فغاں مجھ کو بنایا تھا جسے چُن چُن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پہ جبیں کِیا جنھوں نے محبّ...

ایک پرندہ اور جگنو

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز! نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گُلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا