نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ماں کا خواب

(ماخوذ)

بچوں کے لیے


میں سوئی جو اک شب تو دیکھا یہ خواب

بڑھا اور جس سے مرا اضطراب


یہ دیکھا کہ مَیں جا رہی ہوں کہیں

اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں


لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال

قدم کا تھا دہشت سے اُٹھنا محال


جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی

تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی


زَمرّد سی پوشاک پہنے ہوئے

دِیے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے


وہ چُپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں

خدا جانے جانا تھا اُن کو کہاں


اسی سوچ میں تھی کہ میرا پِسر

مجھے اُس جماعت میں آیا نظر


وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا

دِیا اُس کے ہاتھوں میں جلتا نہ تھا


کہا مَیں نے پہچان کر، میری جاں!

مجھے چھوڑ کر آ گئے تم کہاں؟


جُدائی میں رہتی ہوں مَیں بے قرار

پروتی ہوں ہر روز اشکوں کے ہار


نہ پروا ہماری ذرا تم نے کی

گئے چھوڑ، اچھّی وفا تم نے کی!


جو بچّے نے دیکھا مرا پیچ و تاب

دیا اُس نے مُنہ پھیر کر یوں جواب


رُلاتی ہے تجھ کو جُدائی مری

نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری


یہ کہہ کر وہ کچھ دیر تک چُپ رہا

دِیا پھر دِکھا کر یہ کہنے لگا


سمجھتی ہے تُو ہو گیا کیا اسے؟

ترے آنسوؤں نے بُجھایا اسے!


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے