نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جاوید سے

غارت گر دیں ہے یہ زمانہ

ہے اس کی نہاد کافرانہ

دربارِ شہنشہی سے خوشتر

مردانِ خدا کا آستانہ

لیکن یہ دَورِ ساحری ہے

انداز ہیں سب کے جادُوانہ

سرچشمۂ زندگی ہُوا خشک

باقی ہے کہاں مئے شبانہ!

خالی اُن سے ہُوا دبِستاں

تھی جن کی نگاہ تازیانہ

جس گھر کا مگر چراغ ہے تُو

ہے اُس کا مذاق عارفانہ

جوہر میں ہو ’لااِلہ‘ تو کیا خوف

تعلیم ہو گو فرنگیانہ

شاخِ گُل پر چہک و لیکن

کر اپنی خودی میں آشیانہ!

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا

ہر قطرہ ہے بحرِ بیکرانہ

دہقان اگر نہ ہو تن آساں

ہر دانہ ہے صد ہزار دانہ

“غافل منشیں نہ وقتِ بازی ست

وقتِ ہُنر است و کارسازی ست”


سینے میں اگر نہ ہو دلِ گرم

رہ جاتی ہے زندگی میں خامی

نخچیر اگر ہو زِیرک و چُست

آتی نہیں کام کُہنہ دامی

ہے آبِ حیات اسی جہاں میں

شرط اس کے لیے ہے تَشنہ کامی

غیرت ہے طریقتِ حقیقی

غیرت سے ہے فقر کی تمامی

اے جانِ پدر! نہیں ہے ممکن

شاہیں سے تدرَو کی غلامی

نایاب نہیں متاعِ گُفتار

صد انوریؔ و ہزار جامیؔ!

ہے میری بساط کیا جہاں میں

بس ایک فغانِ زیر بامی

اک صدقِ مقال ہے کہ جس سے

مَیں چشمِ جہاں میں ہُوں گرامی

اللہ کی دین ہے، جسے دے

میراث نہیں بلند نامی

اپنے نورِ نظر سے کیا خوب

فرماتے ہیں حضرتِ نظامیؔ

“جاے کہ بزرگ بایدت بود

فرزندی من نداردت سود”


مومن پہ گراں ہیں یہ شب و روز

دِین و دولت، قِمار بازی!

ناپید ہے بندۂ عمل مست

باقی ہے فقط نفَس درازی

ہِمّت ہو اگر تو ڈھُونڈ وہ فقر

جس فقر کی اصل ہے حجازی

اُس فقر سے آدمی میں پیدا

اللہ کی شانِ بے نیازی

کُنِجشک و حمام کے لیے موت

ہے اُس کا مقام شاہبازی

روشن اُس سے خِرد کی آنکھیں

بے سُرمۂ بُوعلی و رازی

حاصل اُس کا شکوہِ محمود

فطرت میں اگر نہ ہو ایازی

تیری دُنیا کا یہ سرافیل

رکھتا نہیں ذوقِ نَے نوازی

ہے اس کی نگاہِ عالم آشوب

درپردہ تمام کارسازی

یہ فقرِ غیُور جس نے پایا

بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی

مومن کی اسی میں ہے امیری

اللہ سے مانگ یہ فقیری


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے