نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

خُفتگانِ خاک سے استفسار

مہرِ روشن چھُپ گیا، اُٹھّی نقابِ رُوئے شام

شانۂ ہستی پہ ہے بکھرا ہُوا گیسُوئے شام

یہ سیَہ پوشی کی تیّاری کسی کے غم میں ہے

محفلِ قُدرت مگر خورشید کے ماتم میں ہے

کر رہا ہے آسماں جادُو لبِ گُفتار پر

ساحرِ شب کی نظر ہے دیدۂ بیدار پر

غوطہ زن دریائے خاموشی میں ہے موجِ ہوا

ہاں، مگر اک دُور سے آتی ہے آوازِ درا

دل کہ ہے بے تابیِ اُلفت میں دنیا سے نفُور

کھینچ لایا ہے مجھے ہنگامۂ عالم سے دُور

منظرِ حرماں نصیبی کا تماشائی ہوں میں

ہم نشینِ خُفتگان کُنجِ تنہائی ہوں میں


تھم ذرا بے تابیِ دل! بیٹھ جانے دے مجھے

اور اس بستی پہ چار آنسو گرانے دے مجھے

اے مئے غفلت کے سر مستو! کہاں رہتے ہو تم؟

کُچھ کہو اُس دیس کی آخر، جہاں رہتے ہو تم

وہ بھی حیرت خانۂ امروز و فردا ہے کوئی؟

اور پیکارِ عناصِر کا تماشا ہے کوئی؟

آدمی واں بھی حصارِ غم میں ہے محصُور کیا؟

اُس ولایت میں بھی ہے انساں کا دل مجبُور کیا؟

واں بھی جل مرتا ہے سوزِ شمع پر پروانہ کیا؟

اُس چمن میں بھی گُل و بُلبل کا ہے افسانہ کیا؟

یاں تو اک مصرع میں پہلو سے نکل جاتا ہے دل

شعر کی گرمی سے کیا واں بھی پگھل جاتا ہے دل؟

رشتہ و پیوند یاں کے جان کا آزار ہیں

اُس گُلستاں میں بھی کیا ایسے نُکیلے خار ہیں؟

اس جہاں میں اک معیشت اور سَو اُفتاد ہے

رُوح کیا اُس دیس میں اس فکر سے آزاد ہے؟

کیا وہاں بجلی بھی ہے، دہقاں بھی ہے، خرمن بھی ہے؟

قافلے والے بھی ہیں، اندیشۂ رہزن بھی ہے؟

تِنکے چُنتے ہیں وہاں بھی آشیاں کے واسطے؟

خِشت و گِل کی فکر ہوتی ہے مکاں کے واسطے؟

واں بھی انساں اپنی اصلیّت سے بیگانے ہیں کیا؟

امتیازِ ملّت و آئِیں کے دیوانے ہیں کیا؟

واں بھی کیا فریادِ بُلبل پر چمن روتا نہیں؟

اِس جہاں کی طرح واں بھی دردِ دل ہوتا نہیں؟


باغ ہے فردوس یا اک منزلِ آرام ہے؟

یا رُخِ بے پردۂ حُسنِ ازل کا نام ہے؟

کیا جہنّم معصیت سوزی کی اک ترکیب ہے؟

آگ کے شعلوں میں پنہاں مقصدِ تادیب ہے؟

کیا عوض رفتار کے اُس دیس میں پرواز ہے؟

موت کہتے ہیں جسے اہلِ زمیں، کیا راز ہے؟

اضطرابِ دل کا ساماں یاں کی ہست و بود ہے

علمِ انساں اُس ولایت میں بھی کیا محدود ہے؟

دید سے تسکین پاتا ہے دلِ مہجُور بھی؟

’لن ترانی‘ کہہ رہے ہیں یا وہاں کے طُور بھی؟

جستجو میں ہے وہاں بھی رُوح کو آرام کیا؟

واں بھی انساں ہے قتیلِ ذوقِ استفہام کیا؟

آہ! وہ کِشور بھی تاریکی سے کیا معمُور ہے؟

یا محبّت کی تجلّی سے سراپا نُور ہے؟

تم بتا دو راز جو اس گنبدِ گرداں میں ہے

موت اک چُبھتا ہُوا کانٹا دلِ انساں میں ہے


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

اِلتجائے مُسافر

(بہ درگاہِ حضرت محبوبِ الٰہیؒ دہلی) فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اُونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبّت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ تو ام وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تو ام چمن کو چھوڑ کے نِکلا ہوں مثلِ نگہتِ گُل ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہُوں کِیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو فلک نشیں صفَتِ مہر ہُوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی مِلے فغاں مجھ کو بنایا تھا جسے چُن چُن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پہ جبیں کِیا جنھوں نے محبّ...

ایک پرندہ اور جگنو

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز! نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گُلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا