نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرزا غالِبؔ

فکرِ انساں پر تری ہستی سے یہ روشن ہُوا

ہے پرِ مرغِ تخیّل کی رسائی تا کجا

تھا سراپا روح تُو، بزمِ سخن پیکر ترا

زیبِ محفل بھی رہا، محفل سے پنہاں بھی رہا

دید تیری آنکھ کو اُس حُسن کی منظور ہے

بن کے سوزِ زندگی ہر شے میں جو مستور ہے


محفلِ ہستی تری بربط سے ہے سرمایہ دار

جس طرح ندّی کے نغموں سے سکُوتِ کوہسار

تیرے فردوسِ تخیّل سے ہے قدرت کی بہار

تیری کشتِ فکر سے اُگتے ہیں عالم سبزہ وار

زندگی مُضمرَ ہے تیری شوخیِ تحریر میں

تابِ گویائی سے جُنبش ہے لبِ تصویر میں


نُطق کو سَو ناز ہیں تیرے لبِ اعجاز پر

محوِ حیرت ہے ثریّا رفعتِ پرواز پر

شاہدِ مضموں تصّدق ہے ترے انداز پر

خندہ زن ہے غنچۂ دلّی گُلِ شیراز پر

آہ! تُو اُجڑی ہوئی دِلّی میں آرامیدہ ہے

گُلشنِ ویمر* میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے


لُطفِ گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں

ہو تخیّل کا نہ جب تک فکرِ کامل ہم نشیں

ہائے! اب کیا ہو گئی ہندوستاں کی سر زمیں

آہ! اے نظّارہ آموزِ نگاہِ نکتہ بیں

گیسوئے اُردو ابھی منّت پذیر شانہ ہے

شمع یہ سودائیِ دل‌سوزیِ پروانہ ہے


اے جہان آباد! اے گہوارۂ عِلم و ہُنر

ہیں سراپا نالۂ خاموش تیرے بام و در

ذرّے ذرّے میں ترے خوابیدہ ہیں شمس و قمر

یوں تو پوشیدہ ہیں تیری خاک میں لاکھوں گہر

دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے؟

تجھ میں پنہاں کوئی موتی آبدار ایسا بھی ہے؟


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے