نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچّہ اور شمع

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو!

شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو


یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جُنبش ہے کیا

روشنی سے کیا بغَل گیری ہے تیرا مدّعا؟


اس نظارے سے ترا ننھّا سا دل حیران ہے

یہ کسی دیکھی ہُوئی شے کی مگر پہچان ہے


شمع اک شعلہ ہے لیکن تُو سراپا نور ہے

آہ! اس محفل میں یہ عُریاں ہے تُو مستور ہے


دستِ قُدرت نے اسے کیا جانے کیوں عُریاں کیا!

تُجھ کو خاکِ تِیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا


نور تیرا چھُپ گیا زیرِ نقابِ آگہی

ہے غبارِ دیدۂ بینا حجابِ آگہی


زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ

خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ


محفلِ قُدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن

آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن


حُسن، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے

مِہر کی ضوگستری، شب کی سِیہ پوشی میں ہے


آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ

شام کی ظُلمت، شفَق کی گُل فرو شی میں ہے یہ


عظمتِ دیرینہ کے مِٹتے ہُوئے آثار میں

طفلکِ ناآشنا کی کوششِ گُفتار میں


ساکنانِ صحنِ گُلشن کی ہم آوازی میں ہے

ننھّے ننھّے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے


چشمۂ کُہسار میں، دریا کی آزادی میں حُسن

شہر میں، صحرا میں، ویرانے میں، آبادی میں حُسن


رُوح کو لیکن کسی گُم گشتہ شے کی ہے ہوس

ورنہ اس صحرا میں کیوں نالاں ہے یہ مثلِ جرس!


حُسن کے اس عام جلوے میں بھی یہ بے تاب ہے

زندگی اس کی مثالِ ماہیِ بے آب ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے