نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

داغؔ

عظمتِ غالبؔ ہے اک مدّت سے پیوندِ زمیں

مہدیِ مجروحؔ ہے شہرِ خموشاں کا مکیں


توڑ ڈالی موت نے غربت میں مینائے امیرؔ

چشمِ محفل میں ہے اب تک کیفِ صہبائے امیرؔ


آج لیکن ہمنوا! سارا چمن ماتم میں ہے

شمعِ روشن بُجھ گئی، بزمِ سخن ماتم میں ہے


بُلبلِ دلّی نے باندھا اس چمن میں آشیاں

ہم نوا ہیں سب عنادل باغِ ہستی کے جہاں


چل بسا داغؔ آہ! میّت اس کی زیبِ دوش ہے

آخری شاعر جہان آباد کا خاموش ہے


اب کہاں وہ بانکپن، وہ شوخیِ طرزِ بیاں

آگ تھی کافورِ پیری میں جوانی کی نہاں


تھی زبانِ داغؔ پر جو آرزو ہر دل میں ہے

لیلیِ معنی وہاں بے پردہ، یاں محمل میں ہے


اب صبا سے کون پُوچھے گا سکُوتِ گُل کا راز

کون سمجھے گا چمن میں نالۂ بُلبل کا راز


تھی حقیقت سے نہ غفلت فکر کی پرواز میں

آنکھ طائر کی نشیمن پر رہی پرواز میں


اور دِکھلائیں گے مضموں کی ہمیں باریکیاں

اپنے فکرِ نکتہ آرا کی فلک پیمائیاں


تلخیِ دوراں کے نقشے کھینچ کر رُلوائیں گے

یا تخیّل کی نئی دنیا ہمیں دِکھلائیں گے


اس چمن میں ہوں گے پیدا بُلبلِ شیراز بھی

سینکڑوں ساحر بھی ہوں گے، صاحبِ اعجاز بھی


اُٹھّیں گے آزر ہزاروں شعر کے بُت خانے سے

مے پِلائیں گے نئے ساقی نئے پیمانے سے


لِکھّی جائیں گی کتابِ دل کی تفسیریں بہت

ہوں گی اے خوابِ جوانی! تیری تعبیریں بہت


ہوبہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون؟

اُٹھ گیا ناوک فگن، مارے گا دل پر تِیر کون؟


اشک کے دانے زمینِ شعر میں بوتا ہوں میں

تُو بھی رو اے خاکِ دلّی! داغؔ کو روتا ہوں میں


اے جہان آباد، اے سرمایۂ بزمِ سخن!

ہوگیا پھر آج پامالِ خزاں تیرا چمن


وہ گُلِ رنگیں ترا رخصت مثالِ بُو ہوا

آہ! خالی داغؔ سے کاشانۂ اُردو ہوا


تھی نہ شاید کچھ کشش ایسی وطن کی خاک میں

وہ مہِ کامل ہوا پنہاں دکن کی خاک میں


اُٹھ گئے ساقی جو تھے، میخانہ خالی رہ گیا

یادگارِ بزمِ دہلی ایک حالیؔ رہ گیا


آرزو کو خون رُلواتی ہے بیدادِ اجل

مارتا ہے تِیر تاریکی میں صیّادِ اجل


کھُل نہیں سکتی شکایت کے لیے لیکن زباں

ہے خزاں کا رنگ بھی وجہِ قیامِ گُلِستاں


ایک ہی قانونِ عالم گیر کے ہیں سب اثر

بُوئے گُل کا باغ سے، گُلچیں کا دنیا سے سفر

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچّہ اور شمع

کیسی حیرانی ہے یہ اے طفلکِ پروانہ خُو! شمع کے شعلوں کو گھڑیوں دیکھتا رہتا ہے تو یہ مری آغوش میں بیٹھے ہوئے جُنبش ہے کیا روشنی سے کیا بغَل گیری ہے تیرا مدّعا؟ اس نظارے سے ترا ننھّا سا دل حیران ہے یہ کسی دیکھی ہُوئی شے کی مگر پہچان ہے شمع اک شعلہ ہے لیکن تُو سراپا نور ہے آہ! اس محفل میں یہ عُریاں ہے تُو مستور ہے دستِ قُدرت نے اسے کیا جانے کیوں عُریاں کیا! تُجھ کو خاکِ تِیرہ کے فانوس میں پنہاں کیا نور تیرا چھُپ گیا زیرِ نقابِ آگہی ہے غبارِ دیدۂ بینا حجابِ آگہی زندگانی جس کو کہتے ہیں فراموشی ہے یہ خواب ہے، غفلت ہے، سرمستی ہے، بے ہوشی ہے یہ محفلِ قُدرت ہے اک دریائے بے پایانِ حُسن آنکھ اگر دیکھے تو ہر قطرے میں ہے طوفانِ حُسن حُسن، کوہستاں کی ہیبت ناک خاموشی میں ہے مِہر کی ضوگستری، شب کی سِیہ پوشی میں ہے آسمانِ صبح کی آئینہ پوشی میں ہے یہ شام کی ظُلمت، شفَق کی گُل فرو شی میں ہے یہ عظمتِ دیرینہ کے مِٹتے ہُوئے آثار میں طفلکِ ناآشنا کی کوششِ گُفتار میں ساکنانِ صحنِ گُلشن کی ہم آوازی میں ہے ننھّے ننھّے طائروں کی آشیاں سازی میں ہے چشمۂ کُہسار میں، دریا کی آزادی میں حُسن شہر میں، صحرا میں، ویرا...

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

ایک پرندہ اور جگنو

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز! نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گُلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی