نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عشق اور موت (ماخوذ از ٹینی سن)

سُہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی

تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی


کہیں مہر کو تاجِ زر مِل رہا تھا

عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی


سِیَہ پیرہن شام کو دے رہے تھے

ستاروں کو تعلیمِ تابندگی تھی


کہیں شاخِ ہستی کو لگتے تھے پتّے

کہیں زندگی کی کلی پھُوٹتی تھی


فرشتے سِکھاتے تھے شبنم کو رونا

ہنسی گُل کو پہلے پہل آ رہی تھی


عطا درد ہوتا تھا شاعر کے دل کو

خودی تَشنہ کامِ مئے بے خودی تھی


اُٹھی اوّل اوّل گھٹا کالی کالی

کوئی حُور چوٹی کو کھولے کھڑی تھی


زمیں کو تھا دعویٰ کہ مَیں آسماں ہوں

مکاں کہہ رہا تھا کہ مَیں لا مکاں ہوں


غَرض اس قدر یہ نظارہ تھا پیارا

کہ نظّارگی ہو سراپا نظارا


ملَک آزماتے تھے پرواز اپنی

جبینوں سے نورِ ازل آشکارا


فرشتہ تھا اک، عشق تھا نام جس کا

کہ تھی رہبری اُس کی سب کا سہارا


فرشتہ کہ پُتلا تھا بے تابیوں کا

مَلک کا مَلک اور پارے کا پارا


پئے سیر فردوس کو جا رہا تھا

قضا سے مِلا راہ میں وہ قضا را


یہ پُوچھا ترا نام کیا، کام کیا ہے

نہیں آنکھ کو دید تیری گوارا


ہُوا سُن کے گویا قضا کا فرشتہ

اجل ہوں، مرا کام ہے آشکارا


اُڑاتی ہوں مَیں رختِ ہستی کے پُرزے

بُجھاتی ہوں مَیں زندگی کا شرارا


مری آنکھ میں جادوئے نیستی ہے

پیامِ فنا ہے اسی کا اشارا


مگر ایک ہستی ہے دنیا میں ایسی

وہ آتش ہے مَیں سامنے اُس کے پارا


شرر بن کے رہتی ہے انساں کے دل میں

وہ ہے نورِ مطلق کی آنکھوں کا تارا


ٹپکتی ہے آنکھوں سے بن بن کے آنسُو

وہ آنسو کہ ہو جن کی تلخی گوارا


سُنی عشق نے گفتگو جب قضا کی

ہنسی اُس کے لب پر ہوئی آشکارا


گری اُس تبسّم کی بجلی اجل پر

اندھیرے کا ہو نور میں کیا گزارا


بقا کو جو دیکھا فنا ہو گئی وہ

قضا تھی، شکارِ قضا ہو گئی وہ

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے