نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رُخصت اے بزمِ جہاں!

(ماخوذ از ایمرسن)

رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں

آہ! اس آباد ویرانے میں گھبراتا ہوں مَیں


بسکہ مَیں افسردہ دل ہوں، درخورِ محفل نہیں

تُو مرے قابل نہیں ہے، مَیں ترے قابل نہیں


قید ہے، دربارِ سُلطان و شبستانِ وزیر

توڑ کر نکلے گا زنجیرِ طلائی کا اسیر


گو بڑی لذّت تری ہنگامہ آرائی میں ہے

اجنبیّت سی مگر تیری شناسائی میں ہے


مدّتوں تیرے خود آراؤں سے ہم صحبت رہا

مدّتوں بے تاب موجِ بحر کی صورت رہا


مدّتوں بیٹھا ترے ہنگامۂ عشرت میں مَیں

روشنی کی جُستجو کرتا رہا ظُلمت میں مَیں


مدّتوں ڈھُونڈا کِیا نظّارۂ گُل، خار میں

آہ، وہ یوسف نہ ہاتھ آیا ترے بازار میں


چشمِ حیراں ڈھُونڈتی اب اور نظّارے کو ہے

آرزو ساحل کی مجھ طوفان کے مارے کو ہے


چھوڑ کر مانندِ بُو تیرا چمن جاتا ہوں مَیں

رُخصت اے بزمِ جہاں! سُوئے وطن جاتا ہوں مَیں


گھر بنایا ہے سکوتِ دامنِ کُہسار میں

آہ! یہ لذّت کہاں موسیقیِ گُفتار میں


ہم نشینِ نرگسِ شہلا، رفیقِ گُل ہوں مَیں

ہے چمن میرا وطن، ہمسایۂ بُلبل ہوں مَیں


شام کو آواز چشموں کی سُلاتی ہے مجھے

صبح فرشِ سبز سے کوئل جگاتی ہے مجھے


بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند

ہے دلِ شاعر کو لیکن کُنجِ تنہائی پسند


ہے جُنوں مجھ کو کہ گھبراتا ہوں آبادی میں مَیں

ڈھُونڈتا پھرتا ہوں کس کو کوہ کی وادی میں مَیں؟


شوق کس کا سبزہ زاروں میں پھراتا ہے مجھے؟

اور چشموں کے کناروں پر سُلاتا ہے مجھے؟


طعنہ زن ہے تُو کہ شیدا کُنجِ عُزلت کا ہوں مَیں

دیکھ اے غافل! پیامی بزمِ قُدرت کا ہوں مَیں


ہم وطن شمشاد کا، قُمری کا مَیں ہم راز ہوں

اس چمن کی خامشی میں گوش بر آواز ہوں


کچھ جو سنتا ہوں تو اَوروں کو سُنانے کے لیے

دیکھتا ہوں کچھ تو اَوروں کو دِکھانے کے لیے


عاشقِ عُزلت ہے دل، نازاں ہوں اپنے گھر پہ مَیں

خندہ زن ہوں مسندِ دارا و اسکندر پہ مَیں


لیٹنا زیرِ شجر رکھتا ہے جادُو کا اثر

شام کے تارے پہ جب پڑتی ہو رہ رہ کر نظر


عِلم کے حیرت کدے میں ہے کہاں اس کی نمود!

گُل کی پتّی میں نظر آتا ہے رازِ ہست و بود

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے