نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

رات اور شاعر

(رات)

کیوں میری چاندنی میں پھرتا ہے تُو پریشاں

خاموش صورتِ گُل، مانندِ بُو پریشاں

تاروں کے موتیوں کا شاید ہے جوہری تُو

مچھلی ہے کوئی میرے دریائے نور کی تُو

یا تُو مری جبیں کا تارا گرا ہُوا ہے

رفعت کو چھوڑ کر جو بستی میں جا بسا ہے

خاموش ہو گیا ہے تارِ ربابِ ہستی

ہے میرے آئنے میں تصویرِ خوابِ ہستی

دریا کی تہ میں چشمِ گرادب سو گئی ہے

ساحل سے لگ کے موجِ بے تاب سو گئی ہے

بستی زمیں کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے

یوں سو گئی ہے جیسے آباد ہی نہیں ہے

شاعر کا دل ہے لیکن ناآشنا سکُوں سے

آزاد رہ گیا تُو کیونکر مرے فسوں سے؟


(شاعر)

مَیں ترے چاند کی کھیتی میں گُہر بوتا ہوں

چھُپ کے انسانوں سے مانندِ سحَر روتا ہوں

دن کی شورش میں نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں

عُزلتِ شب میں مرے اشک ٹپک جاتے ہیں

مجھ میں فریاد جو پنہاں ہے، سُناؤں کس کو

تپشِ شوق کا نظّارہ دِکھاؤں کس کو

برقِ ایمن مرے سینے پہ پڑی روتی ہے

دیکھنے والی ہے جو آنکھ، کہاں سوتی ہے!

صفَتِ شمعِ لحد مُردہ ہے محفل میری

آہ، اے رات! بڑی دُور ہے منزل میری

عہدِ حاضر کی ہوا راس نہیں ہے اس کو

اپنے نقصان کا احساس نہیں ہے اس کو

ضبطِ پیغامِ محبّت سے جو گھبراتا ہوں

تیرے تابندہ ستاروں کو سُنا جاتا ہوں


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے