نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک آرزو

دُنیا کی محفلوں سے اُکتا گیا ہوں یا رب!

کیا لُطف انجمن کا جب دل ہی بُجھ گیا ہو


شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا

ایسا سکُوت جس پر تقریر بھی فدا ہو


مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری

دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو


آزاد فکر سے ہوں، عُزلت میں دن گزاروں

دنیا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گیا ہو


لذّت سرود کی ہو چڑیوں کے چہچہوں میں

چشمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو


گُل کی کلی چٹک کر پیغام دے کسی کا

ساغر ذرا سا گویا مجھ کو جہاں نما ہو


ہو ہاتھ کا سَرھانا، سبزے کا ہو بچھونا

شرمائے جس سے جلوت، خلوت میں وہ ادا ہو


مانوس اس قدر ہو صورت سے میری بُلبل

ننھّے سے دل میں اُس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو


صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں

ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو


ہو دل فریب ایسا کُہسار کا نظارہ

پانی بھی موج بن کر، اُٹھ اُٹھ کے دیکھتا ہو


آغوش میں زمیں کی سویا ہُوا ہو سبزہ

پھِر پھِر کے جھاڑیوں میں پانی چمک رہا ہو


پانی کو چھُو رہی ہو جھُک جھُک کے گُل کی ٹہنی

جیسے حَسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو


مہندی لگائے سورج جب شام کی دُلھن کو

سُرخی لیے سنہری ہر پھُول کی قبا ہو


راتوں کو چلنے والے رہ جائیں تھک کے جس دم

اُمّید اُن کی میرا ٹُوٹا ہوا دِیا ہو


بجلی چمک کے اُن کو کُٹیا مری دکھا دے

جب آسماں پہ ہر سُو بادل گھِرا ہوا ہو


پچھلے پہر کی کوئل، وہ صبح کی مؤذِّن

مَیں اُس کا ہم نوا ہوں، وہ میری ہم نوا ہو


کانوں پہ ہو نہ میرے دَیر و حرم کا احساں

روزن ہی جھونپڑی کا مجھ کو سحر نما ہو


پھُولوں کو آئے جس دم شبنم وضو کرانے

رونا مرا وضو ہو، نالہ مری دُعا ہو


اس خامشی میں جائیں اتنے بلند نالے

تاروں کے قافلے کو میری صدا درا ہو


ہر دردمند دل کو رونا مرا رُلا دے

بے ہوش جو پڑے ہیں، شاید انھیں جگا دے


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے