نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک مکڑا اور مکھّی

(ماخوذ)

بچوں کے لیے


اک دن کسی مکھّی سے یہ کہنے لگا مکڑا

اس راہ سے ہوتا ہے گزر روز تمھارا

لیکن مری کُٹیا کی نہ جاگی کبھی قسمت

بھُولے سے کبھی تم نے یہاں پاؤں نہ رکھّا

غیروں سے نہ مِلیے تو کوئی بات نہیں ہے

اپنوں سے مگر چاہیے یوں کھنچ کے نہ رہنا

آؤ جو مرے گھر میں تو عزّت ہے یہ میری

وہ سامنے سیڑھی ہے جو منظور ہو آنا

مکھّی نے سُنی بات جو مکڑے کی تو بولی

حضرت! کسی نادان کو دیجے گا یہ دھوکا

اس جال میں مکھّی کبھی آنے کی نہیں ہے

جو آپ کی سیڑھی پہ چڑھا، پھر نہیں اُترا


مکڑے نے کہا واہ! فریبی مجھے سمجھے

تم سا کوئی نادان زمانے میں نہ ہو گا

منظور تمھاری مجھے خاطر تھی وگرنہ

کچھ فائدہ اپنا تو مرا اس میں نہیں تھا

اُڑتی ہوئی آئی ہو خدا جانے کہاں سے

ٹھہرو جو مرے گھر میں تو ہے اس میں بُرا کیا!

اِس گھر میں کئی تم کو دکھانے کی ہیں چیزیں

باہر سے نظر آتا ہے چھوٹی سی یہ کُٹیا

لٹکے ہوئے دروازوں پہ باریک ہیں پردے

دیواروں کو آئینوں سے ہے میں نے سجایا

مہمانوں کے آرام کو حاضر ہیں بچھونے

ہر شخص کو ساماں یہ میّسر نہیں ہوتا

مکھّی نے کہا خیر، یہ سب ٹھیک ہے لیکن

میں آپ کے گھر آؤں، یہ امّید نہ رکھنا

ان نرم بچھونوں سے خدا مجھ کو بچائے

سو جائے کوئی ان پہ تو پھر اُٹھ نہیں سکتا


مکڑے نے کہا دل میں، سُنی بات جو اُس کی

پھانسوں اسے کس طرح یہ کم بخت ہے دانا

سَو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں

دیکھو جسے دنیا میں خوشامد کا ہے بندا

یہ سوچ کے مکھّی سے کہا اُس نے بڑی بی!

اللہ نے بخشا ہے بڑا آپ کو رُتبا

ہوتی ہے اُسے آپ کی صورت سے محبّت

ہو جس نے کبھی ایک نظر آپ کو دیکھا

آنکھیں ہیں کہ ہیرے کی چمکتی ہوئی کَنیاں

سر آپ کا اللہ نے کلغی سے سجایا

یہ حُسن، یہ پوشاک، یہ خوبی، یہ صفائی

پھر اس پہ قیامت ہے یہ اُڑتے ہوئے گانا

مکھی نے سُنی جب یہ خوشامد تو پسیجی

بولی کہ نہیں آپ سے مجھ کو کوئی کھٹکا

انکار کی عادت کو سمجھتی ہوں بُرا میں

سچ یہ ہے کہ دل توڑنا اچھّا نہیں ہوتا

یہ بات کہی اور اُڑی اپنی جگہ سے

پاس آئی تو مکڑے نے اُچھل کر اُسے پکڑا

بھوکا تھا کئی روز سے، اب ہاتھ جو آئی

آرام سے گھر بیٹھ کے مکھّی کو اُڑایا


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ایک پرندہ اور جگنو

سرِ شام ایک مرغِ نغمہ پیرا کسی ٹہنی پہ بیٹھا گا رہا تھا چمکتی چیز اک دیکھی زمیں پر اُڑا طائر اُسے جُگنو سمجھ کر کہا جُگنو نے او مرغِ نواریز! نہ کر بے کس پہ منقارِ ہوس تیز تجھے جس نے چہک، گُل کو مہک دی اُسی اللہ نے مجھ کو چمک دی لباسِ نور میں مستور ہوں میں پتنگوں کے جہاں کا طُور ہوں میں چہک تیری بہشتِ گوش اگر ہے چمک میری بھی فردوسِ نظر ہے پروں کو میرے قُدرت نے ضیا دی تجھے اُس نے صدائے دل رُبا دی تری منقار کو گانا سکھایا مجھے گُلزار کی مشعل بنایا چمک بخشی مجھے، آواز تجھ کو دیا ہے سوز مجھ کو، ساز تجھ کو مخالف ساز کا ہوتا نہیں سوز جہاں میں ساز کا ہے ہم نشیں سوز قیامِ بزمِ ہستی ہے انھی سے ظہورِ اوج و پستی ہے انھی سے ہم آہنگی سے ہے محفل جہاں کی اسی سے ہے بہار اس بوستاں کی

کنارِ راوی

سکُوتِ شام میں محوِ سرود ہے راوی نہ پُوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی پیام سجدے کا یہ زیروبم ہُوا مجھ کو جہاں تمام سوادِ حرم ہُوا مجھ کو سرِ کنارۂ آبِ رواں کھڑا ہوں میں خبر نہیں مجھے لیکن کہاں کھڑا ہوں میں شرابِ سُرخ سے رنگیں ہوا ہے دامنِ شام لیے ہے پیرِ فلک دستِ رعشہ دار میں جام عَدم کو قافلۂ روز تیزگام چلا شفَق نہیں ہے، یہ سورج کے پھُول ہیں گویا کھڑے ہیں دُور وہ عظمت فزائے تنہائی منارِ خواب گہِ شہسوارِ چغتائی فسانۂ ستمِ انقلاب ہے یہ محل کوئی زمانِ سلَف کی کتاب ہے یہ محل مقام کیا ہے، سرودِ خموش ہے گویا شجر، یہ انجمنِ بے خروش ہے گویا رواں ہے سینۂ دریا پہ اک سفینۂ تیز ہُوا ہے موج سے ملاّح جس کا گرمِ ستیز سبک روی میں ہے مثلِ نگاہ یہ کشتی نِکل کے حلقہ حدّ نظر سے دُور گئی جہازِ زندگیِ آدمی رواں ہے یونہی ابَد کے بحر میں پیدا یونہی، نہاں ہے یونہی شکست سے یہ کبھی آشنا نہیں ہوتا نظر سے چھُپتا ہے لیکن فنا نہیں ہوتا

اِلتجائے مُسافر

(بہ درگاہِ حضرت محبوبِ الٰہیؒ دہلی) فرشتے پڑھتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیض عام ہے تیرا ستارے عشق کے تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا تری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اُونچا مقام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبّت میں رنگِ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اگر سیاہ دلم، داغِ لالہ زارِ تو ام وگر کُشادہ جبینم، گُلِ بہارِ تو ام چمن کو چھوڑ کے نِکلا ہوں مثلِ نگہتِ گُل ہُوا ہے صبر کا منظور امتحاں مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذّت کشاں کشاں مجھ کو نظر ہے ابرِ کرم پر، درختِ صحرا ہُوں کِیا خدا نے نہ محتاجِ باغباں مجھ کو فلک نشیں صفَتِ مہر ہُوں زمانے میں تری دعا سے عطا ہو وہ نردباں مجھ کو مقام ہم سفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو مری زبانِ قلم سے کسی کا دل نہ دُکھے کسی سے شکوہ نہ ہو زیرِ آسماں مجھ کو دلوں کو چاک کرے مثلِ شانہ جس کا اثر تری جناب سے ایسی مِلے فغاں مجھ کو بنایا تھا جسے چُن چُن کے خار و خس میں نے چمن میں پھر نظر آئے وہ آشیاں مجھ کو پھر آ رکھوں قدمِ مادر و پدر پہ جبیں کِیا جنھوں نے محبّ...