نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایک پہا ڑ اور گلہری

(ماخوذ از ایمرسن)

بچوں کے لیے


کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے

تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

ذرا سی چیز ہے، اس پر غرور، کیا کہنا

یہ عقل اور یہ سمجھ، یہ شعور، کیا کہنا!

خدا کی شان ہے ناچیز چیز بن بیٹھیں

جو بے شعور ہوں یوں باتمیز بن بیٹھیں

تری بساط ہے کیا میری شان کے آگے

زمیں ہے پست مری آن بان کے آگے

جو بات مجھ میں ہے، تجھ کو وہ ہے نصیب کہاں

بھلا پہاڑ کہاں، جانور غریب کہاں!


کہا یہ سُن کے گلہری نے، مُنہ سنبھال ذرا

یہ کچّی باتیں ہیں دل سے انھیں نکال ذرا

جو مَیں بڑی نہیں تیری طرح تو کیا پروا

نہیں ہے تُو بھی تو آخر مری طرح چھوٹا

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے

کوئی بڑا، کوئی چھوٹا، یہ اُس کی حکمت ہے

بڑا جہان میں تجھ کو بنا دیا اُس نے

مجھے درخت پہ چڑھنا سِکھا دیا اُس نے

قدم اُٹھانے کی طاقت نہیں ذرا تجھ میں

نِری بڑائی ہے، خوبی ہے اور کیا تجھ میں

جو تُو بڑا ہے تو مجھ سا ہُنر دِکھا مجھ کو

یہ چھالیا ہی ذرا توڑ کر دِکھا مجھ کو

نہیں ہے چیز نِکمّی کوئی زمانے میں

کوئی بُرا نہیں قُدرت کے کارخانے میں


اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے