نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

چاند

میرے ویرانے سے کوسوں دُور ہے تیرا وطن

ہے مگر دریائے دل تیری کشش سے موجزن


قصد کس محفل کا ہے؟ آتا ہے کس محفل سے تو؟

زرد رُو شاید ہوا رنجِ رہِ منزل سے تو


آفرنیش میں سراپا نور تُو، ظُلمت ہوں میں

اس سیہ روزی پہ لیکن تیرا ہم قسمت ہوں میں


آہ! مَیں جلتا ہوں سوزِ اشتیاقِ دید سے

تو سراپا سوز داغِ منّتِ خورشید سے


ایک حلقے پر اگر قائم تری رفتار ہے

میری گردش بھی مثالِ گردشِ پَرکار ہے


زندگی کی رہ میں سرگرداں ہے تُو، حیراں ہوں مَیں

تُو فروزاں محفلِ ہستی میں ہے، سوزاں ہوں مَیں


مَیں رہِ منزل میں ہوں، تُو بھی رہِ منزل میں ہے

تیری محفل میں جو خاموشی ہے، میرے دل میں ہے


تُو طلب خُو ہے تو میرا بھی یہی دستور ہے

چاندنی ہے نور تیرا، عشق میرا نور ہے


انجمن ہے ایک میری بھی جہاں رہتا ہوں میں

بزم میں اپنی اگر یکتا ہے تُو، تنہا ہوں مَیں


مہرِ کا پرتَو ترے حق میں ہے پیغامِ اجل

محو کر دیتا ہے مجھ کو جلوۂ حُسنِ ازل


پھر بھی اے ماہِ مبیں! مَیں اور ہوں تُو اور ہے

درد جس پہلو میں اُٹھتا ہو، وہ پہلو اور ہے


گرچہ مَیں ظلمت سراپا ہوں، سراپا نور تو

سینکڑوں منزل ہے ذوقِ آگہی سے دُور تو


جو مری ہستی کا مقصد ہے، مجھے معلوم ہے

یہ چمک وہ ہے، جبیں جس سے تری محروم ہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے