نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اِنسان اور بزمِ قُد رت

صبح خورشیدِ دُرَخشاں کو جو دیکھا میں نے

بزمِ معمورۂ ہستی سے یہ پُوچھا میں نے

پرتوِ مہر کے دم سے ہے اُجالا تیرا

سیمِ سیّال ہے پانی ترے دریاؤں کا

مہر نے نور کا زیور تجھے پہنایا ہے

تیری محفل کو اسی شمع نے چمکایا ہے

گُل و گُلزار ترے خُلد کی تصویریں ہیں

یہ سبھی سُورۂ ’وَ الشمَّس‘ کی تفسیریں ہیں

سُرخ پوشاک ہے پھُولوں کی، درختوں کی ہری

تیری محفل میں کوئی سبز، کوئی لال پری

ہے ترے خیمۂ گردُوں کی طِلائی جھالر

بدلیاں لال سی آتی ہیں اُفق پر جو نظر

کیا بھلی لگتی ہے آنکھوں کو شفق کی لالی

مئے گُلرنگ خُمِ شام میں تُو نے ڈالی

رُتبہ تیرا ہے بڑا، شان بڑی ہے تیری

پردۂ نور میں مستور ہے ہر شے تیری

صبح اک گیت سراپا ہے تری سطوت کا

زیرِ خورشید نشاں تک بھی نہیں ظلمت کا

مَیں بھی آباد ہوں اس نور کی بستی میں مگر

جل گیا پھر مری تقدیر کا اختر کیونکر؟

نور سے دُور ہوں ظلمت میں گرفتار ہوں میں

کیوں سیَہ روز، سیَہ بخت، سیَہ کار ہوں میں؟


مَیں یہ کہتا تھا کہ آواز کہیں سے آئی

بامِ گردُوں سے و یا صحنِ زمیں سے آئی

ہے ترے نور سے وابستہ مری بود و نبود

باغباں ہے تری ہستی پئے گُلزارِ وجود

انجمن حُسن کی ہے تُو، تری تصویر ہوں میں

عشق کا تُو ہے صحیفہ، تری تفسیر ہوں میں

میرے بگڑے ہوئے کاموں کو بنایا تُو نے

بار جو مجھ سے نہ اٹھّا وہ اُٹھایا تُو نے

نورِ خورشید کی محتاج ہے ہستی میری

اور بے منّتِ خورشید چمک ہے تری

ہو نہ خورشید تو ویراں ہو گُلستاں میرا

منزلِ عیش کی جا نام ہو زنداں میرا

آہ، اے رازِ عیاں کے نہ سمجھے والے!

حلقۂ دامِ تمنّا میں اُلجھنے والے

ہائے غفلت کہ تری آنکھ ہے پابندِ مجاز

ناز زیبا تھا تجھے، تُو ہے مگر گرمِ نیاز

تُو اگر اپنی حقیقت سے خبردار رہے

نہ سیَہ روز رہے پھر نہ سیَہ کار رہے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے