نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نا لۂ فراق

(آرنلڈ کی یاد میں)

جا بسا مغرب میں آخر اے مکاں تیرا مکیں

آہ! مشرق کی پسند آئی نہ اس کو سر زمیں

آگیا آج اس صداقت کا مرے دل کو یقیں

ظُلمتِ شب سے ضیائے روزِ فرقت کم نہیں

“تا ز آغوشِ وداعش داغِ حیرت چیدہ است

ہمچو شمعِ کُشتہ در چشمم نگہ خوابیدہ است”


کُشتۂ عُزلت ہوں، آبادی میں گھبراتا ہوں میں

شہر سے سودا کی شدّت میں نکل جاتا ہوں میں

یادِ ایّامِ سلَف سے دل کو تڑپاتا ہوں میں

بہرِ تسکیں تیری جانب دوڑتا آتا ہوں میں

آنکھ گو مانوس ہے تیرے در و دیوار سے

اجنبیّت ہے مگر پیدا مری رفتار سے


ذرّہ میرے دل کا خورشید آشنا ہونے کو تھا

آئنہ ٹُوٹا ہُوا عالم نما ہونے کو تھا

نخل میری آرزوؤں کا ہرا ہونے کو تھا

آہ! کیا جانے کوئی میں کیا سے کیا ہونے کو تھا

ابرِ رحمت دامن از گُلزارِ من برچید و رفت

اندکے بر غنچہ ہائے آرزُو بارید و رفت


تُو کہاں ہے اے کلیمِ ذروۂ سینائے علم

تھی تری موجِ نفَس بادِ نشاط افزائے علم

اب کہاں وہ شوقِ رہ پیمائیِ صحرائے علم

تیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم

“شورِ لیلیٰ کو کہ باز آرایشِ سودا کند

خاکِ مجنوں را غبارِ خاطرِ صحرا کند”


کھول دے گا دشتِ وحشت عقدۂ تقدیر کو

توڑ کر پہنچوں گا مَیں پنجاب کی زنجیر کو

دیکھتا ہے دیدۂ حیراں تری تصویر کو

کیا تسلّی ہو مگر گرویدۂ تقریر کو

“تابِ گویائی نہیں رکھتا دہَن تصویر کا

خامشی کہتے ہیں جس کو، ہے سخن تصویر کا”

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے