نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سرگزشتِ آدم

سُنے کوئی مِری غربت کی داستاں مجھ سے

بھُلایا قصّۂ پیمانِ اوّلیں میں نے


لگی نہ میری طبیعت ریاضِ جنّت میں

پیا شعُور کا جب جامِ آتشیں میں نے


رہی حقیقتِ عالم کی جُستجو مجھ کو

دِکھایا اوجِ خیالِ فلک نشیں میں نے


مِلا مزاج تغیّر پسند کچھ ایسا

کِیا قرار نہ زیرِ فلک کہیں میں نے


نکالا کعبے سے پتھّر کی مورتوں کو کبھی

کبھی بُتوں کو بنایا حرم نشیں میں نے


کبھی میں ذوقِ تکلّم میں طور پر پہنچا

چھُپایا نورِ ازل زیرِ آستیں میں نے


کبھی صلیب پہ اپنوں نے مجھ کو لٹکایا

کِیا فلک کو سفر، چھوڑ کر زمیں میں نے


کبھی میں غارِ حرا میں چھُپا رہا برسوں

دیا جہاں کو کبھی جامِ آخریں میں نے


سُنایا ہند میں آ کر سرودِ ربّانی

پسند کی کبھی یُوناں کی سر زمیں میں نے


دیارِ ہند نے جس دم مری صدا نہ سُنی

بسایا خطّۂ جاپان و مُلکِ چیں میں نے


بنایا ذرّوں کی ترکیب سے کبھی عالم

خلافِ معنیِ تعلیمِ اہلِ دیں میں نے


لہُو سے لال کیا سینکڑوں زمینوں کو

جہاں میں چھیڑ کے پیکارِ عقل و دیں میں نے


سمجھ میں آئی حقیقت نہ جب ستاروں کی

اسی خیال میں راتیں گزار دیں میں نے


ڈرا سکِیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سِکھایا مسئلۂ گردشِ زمیں میں نے


کشش کا راز ہوَیدا کِیا زمانے پر

لگا کے آئنۂ عقلِ دُور بیں میں نے


کِیا اسیر شعاعوں کو، برقِ مُضطر کو

بنادی غیرتِ جنّت یہ سرزمیں میں نے


مگر خبر نہ مِلی آہ! رازِ ہستی کی

کِیا خرد سے جہاں کو تہِ نگیں میں نے


ہُوئی جو چشمِ مظاہر پرست وا آخر

تو پایا خانۂ دل میں اُسے مکیں میں نے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے