نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

طفلِ شِیر خوار

مَیں نے چاقو تجھ سے چھِینا ہے تو چِلّاتا ہے تُو

مہرباں ہوں مَیں، مجھے نا مہرباں سمجھا ہے تُو


پھر پڑا روئے گا اے نوواردِ اقلیمِ غم

چُبھ نہ جائے دیکھنا! باریک ہے نوکِ قلم


آہ! کیوں دُکھ دینے والی شے سے تجھ کو پیار ہے

کھیل اس کاغذ کے ٹکڑے سے، یہ بے آزار ہے


گیند ہے تیری کہاں، چینی کی بِلّی ہے کد ھر؟

وہ ذرا سا جانور ٹُوٹا ہُوا ہے جس کا سر


تیرا آئینہ تھا آزادِ غبارِ آرزو

آنکھ کھُلتے ہی چمک اُٹھّا شرارِ آرزو


ہاتھ کی جُنبش میں، طرزِ دید میں پوشیدہ ہے

تیری صورت آرزو بھی تیری نوزائیدہ ہے


زندگانی ہے تری آزادِ قیدِ امتیاز

تیری آنکھوں پر ہوَیدا ہے مگر قُدرت کا راز


جب کسی شے پر بگڑ کر مجھ سے، چِلّاتا ہے تُو

کیا تماشا ہے رَدی کاغذ سے من جاتا ہے تُو


آہ! اس عادت میں ہم آہنگ ہوں مَیں بھی ترا

تُو تلوّن آشنا، مَیں بھی تلوّن آشنا


عارضی لذّت کا شیدائی ہوں، چِلّاتا ہوں مَیں

جلد آ جاتا ہے غصّہ، جلد من جاتا ہوں مَیں


میری آنکھوں کو لُبھا لیتا ہے حُسنِ ظاہری

کم نہیں کچھ تیری نادانی سے نادانی مری


تیری صورت گاہ گریاں گاہ خنداں مَیں بھی ہوں

دیکھنے کو نوجواں ہوں، طفلِ ناداں مَیں بھی ہوں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

ہمالہ

اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں چُومتا ہے تیری پیشانی کو جھُک کر آسماں تجھ میں کُچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں تُو جواں ہے گردشِ شام و سحَر کے درمیاں ایک جلوہ تھا کلیمِ طُورِ سینا کے لیے تُو تجلّی ہے سراپا چشمِ بینا کے لیے امتحانِ دیدۂ ظاہر میں کوہستاں ہے تُو پاسباں اپنا ہے تو، دیوارِ ہندُستاں ہے تُو مطلعِ اوّل فلک جس کا ہو وہ دِیواں ہے تُو سُوئے خلوت گاہِ دل دامن کشِ انساں ہے تُو برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر خندہ زن ہے جو کُلاہِ مہرِ عالم تاب پر تیری عمرِ رفتہ کی اک آن ہے عہدِ کُہن وادیوں میں ہیں تری کالی گھٹائیں خیمہ زن چوٹیاں تیری ثریّا سے ہیں سرگرمِ سخن تُو زمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن چشمۂ دامن ترا آئینۂ سیّال ہے دامنِ موجِ ہوا جس کے لیے رُومال ہے ابر کے ہاتھوں میں رہوارِ ہوا کے واسطے تازیانہ دے دیا برقِ سرِ کُہسار نے اے ہمالہ کوئی بازی گاہ ہے تُو بھی، جسے دستِ قُدرت نے بنایا ہے عناصِر کے لیے ہائے کیا فرطِ طرب میں جھُومتا جاتا ہے ابر فیلِ بے زنجیر کی صُورت اُڑا جاتا ہے ابر جُنبشِ...

بچے کی دُعا

(ماخوذ) بچوں کے لیے لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنّا میری زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری دُور دنیا کا مرے دَم سے اندھیرا ہو جائے ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے ہو مرے دَم سے یونہی میرے وطن کی زینت جس طرح پھُول سے ہوتی ہے چمن کی زینت زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب عِلم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یا رب! ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا دردمندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا مرے اللہ! بُرائی سے بچانا مجھ کو نیک جو راہ ہو، اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

ہمدردی

(ماخوذ از ولیم کو پر) بچوں کے لیے ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا بُلبل تھا کوئی اُداس بیٹھا کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی اُڑنے چُگنے میں دن گزارا پہنچوں کِس طرح آشیاں تک ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا سُن کر بُلبل کی آہ و زاری جُگنو کوئی پاس ہی سے بولا حاضر ہُوں مدد کو جان و دل سے کِیڑا ہوں اگرچہ مَیں ذرا سا کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری مَیں راہ میں روشنی کروں گا اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل چمکا کے مجھے دِیا بنایا ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھّے آتے ہیں جو کام دوسرں کے